9.1 C
Pakistan
Wednesday, December 6, 2023

کچھ چارہ گروں کا علاج

   

میں نے بطو ر ہیلتھ رپورٹر کئی اسٹوریوں پر کام کیا جس میں مجھے اس سسٹم کے حوالے سے کئی مرتبہ ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا، کئی بار میڈیکل سپرنٹنڈنٹس کی کوتاہیاں نظر آئیں اور یہ لوگ معطل بھی ہوئے مگر نہ جانے ان کے پاس کیا گُر ہے کہ اسی عہدے پر بحال ہوجاتے ہیں اور اپنی نوکری پوری کرتے ہیں ۔اس روداد کی مثال میں یوں دیتا ہوں کہ گزشتہ دنوں نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے جناح ہسپتال کا دورہ کیا اور اس میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر امجد کی کوتاہی نظر آنے پر اس کو معطل کردیااور اس ہسپتال کا چارج ایک بار پھر ڈاکٹر یحییٰ کو دے دیا جو اس سے قبل دو مرتبہ مریضوں کو سہولیات فراہم نہ کرنے کی وجہ سے معطل ہوچکے ہیں اور اب پھر اسی روش پر گامزن ہیں، نہ وہ کسی مریض کے لواحقین کا فون اٹینڈ کرتے ہیں اور نہ ہی ایمرجنسی میں مریضوں کو سہولیات فراہم کررہے ہیں ۔ان کی پشت پناہی ظاہر ہے پرنسپل علامہ اقبال میڈیکل کالج پروفیسر ندیم حفیظ بٹ ہی کررہے ہیں کیونکہ ان کو بھی ڈاکٹر یحیٰ سلطان کے علاوہ دوسرا کوئی کمپیٹنٹ آفیسر نظر نہیں آتا جو مریضوں کو چکما دینے اور ان کو سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہے ۔ آج اس کالم کو لکھتے وقت بھی جناح ہسپتال مکمل طور پر مریضوں کو سہولیات فراہم نہیں کررہا اور نہ ہی وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس ہسپتال کا دوبارہ دورہ کیا کہ وہاں کاجائزہ لیا جائے کہ اب مریضوں کو کیا سہولیات فراہم کی جارہی ہیں ، اسی طرح کی صورتحال سے سروسز ہسپتال بھی دوچار رہا ،وہاں پر بھی عوام کو صحت کی سہولیات کے ضمن میں صرف ٹالاجاتا ہے اس ہسپتال میں بھی ڈاکٹر احتشام کو میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تعینات کیا گیا ان سے پیشہ وارانہ غلطی سر زد ہوئی اور ایک مریض اپنی جان سے گیا ان کے ساتھ میڈیکل کے ایک پروفیسر کوبھی مورد الزام ٹھرایا گیا اور دونوں کو معطل کردیا گیا ۔کچھ دنوں بعد پروفیسر آف میڈیسن کا تبادلہ فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی ہوگیا اوربعد میں ان کو نواز کر ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی کنگ ایڈورڈ میں پروفیسر آف میڈیسن تعینات کردیا گیا ۔آجکل وہ وہاں اپنا کام چلا رہےہیں جبکہ ڈاکٹر احتشام کو ایک بار پھر اسی ہسپتال یعنی سروسز میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تعینات کردیا گیا ان کا رویہ مریضوں کے ساتھ ویسا ہی رہا جیسا معطل ہونے سے قبل تھا۔ اس دوران ہمارے دوست فراز عدیم نے اپنے بھائی کی طبیعت اور اس کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے ان سے رابطے کی کوشش کی جو بے سود ثابت ہوئی اور یہ بھی اپنے دوسرے پیش رو کی طرح مریضوں اور ان کے لواحقین کا فون اٹھانا پسند نہیں کرتے مگر غضب کی بات ہے سیکرٹری صحت کا فون آجائے تو یہ آدھی رات کو بھی اٹھ کر ان سے بات کرتے ہیں اور تمام پروٹوکول اس مریض کو مہیا کرتے ہیں۔پھر بات یوں ہوئی کہ ایک روز شعبہ امراض ناک ،کان اور گلا کے ڈاکٹرز مریض کا آپریشن کررہےتھے جس پر لائٹ چلی گئی اور انھوں نے سوشل میڈیا پر ویڈیو چلا دی کہ اس مریض کو میں نے بےہوش تو کردیا ہے مگر مجھے نہیں معلوم کہ یہ مریض ہوش میں کب آئے گا کیونکہ آپریشن تھیٹر میں بجلی کی بحالی کا کوئی متبادل نظام موجود نہیں، اس بات پر اعلی ٰسطحی انکوائری ہوئی اور پرنسپل پروفیسر فاروق افضل اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر احتشام کو معطل کردیا گیا کیونکہ اس انکوائری میں ان دونوں کی نااہلی نظر آئی۔ اس واقعہ کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے سروسز ہسپتال کا تین گھنٹے سے بھی زائد کا دورہ کیا تو ان کو مزید نااہلیاں نظر آئیں جس پر انھوں نے اعلان کیا کہ اگر آج پرنسپل اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ دونوں موجود ہوتے تو میں ان دونوں کو معطل کردیتا ۔ ایک صحافی کی طرح خبر دینے کی ضرورت کے پیش نظر میں نے کئی بارمریضوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے ڈاکٹر احتشام کے فون پر آفس آوورز میں کال کی مگر بے سود کوئی جواب نہیں آتا ،اور اب مجھے یہ چیز نظر آرہی ہے کہ ڈاکٹر احتشام کو ایک بار پھر نااہلی سے صاف کرنے کے لیے میو ہسپتال کا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تعینات کردیا جائے گا کیونکہ یہاں پر ہر اس نااہل کو نوازا جاتا ہے جو اپنے کام میں مکمل نااہلی کا بادشاہ ہوتا ہے مگر مجھے وزیر اعلی ٰپنجاب محسن نقوی کا فقرہ بہت پسند آیا جس میں انھوں نے کہا کہ میں اپنے کسی بھی مریض کو سروسز ہسپتال ریفر نہیں کرسکتا کیونکہ یہاں پر مریضوں کو دی جانے والی سہولیات کی عدم فراہمی نظر آرہی ہے آپ خود ہی بتائیں کہ مریض کدھر جائیں کیونکہ پنجاب کی سابقہ حکومتوں نے عوام کی صحت کے حوالے سے شروع کیے جانے والے پراجیکٹس کو روک کر ان کے پیسے کہیں اور ٹرانسفر کر دیے، اس کی مثال میاں منشی ہسپتال کا ٹراما سینٹر ہے جو 8سال سے اپنے مسیحا کا انتظار ہی کررہا ہے اب شاید یہ مسیحا پروفیسر جاوید اکرم ہوں یا پھر نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔مگر جب بھی بند روڈ پر کوئی شدید نوعیت کا حادثہ ہوتا ہے تو اس کو فوری طور پر میاں منشی ہسپتال لایا جاتا ہے جس کے بعد سی ٹی اسکین کے لیے میو ،گنگا رام اور سروسز ہسپتا ل میں ریفر کیا جاتا ہے جں پر پہلے ہی سے سہولیات کا فقدان ہے ایسے میں وہ مریض جن کے لیے ہسپتال تعمیر کیے گئے ہیں وہ کدھر جائیں؟کیا وہ سہولیات کے لیے دربدر ہی رہیں گے یا پھر ان کو سہولیات فراہم کی جائیں گی ؟یہ وہ سوال ہے جس کا جواب میں بھی دیگر لوگوں کی طرح ڈھونڈ رہا ہوںشاید کہ تِرے دل میں اتر جائے میری بات۔

Related Articles

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Stay Connected

22,017FansLike
0FollowersFollow
21,400SubscribersSubscribe
- Advertisement -

Latest Articles