25.8 C
Pakistan
Sunday, October 1, 2023

کپتان ۔۔مزید مضبوط

تقدیر کا قاضی کہتا ہے!
کیوں ظلم کے دن سہتا ہے؟
اپنے بچوں کے مستقبل کا
قاتل بن کےرہتا ہے
نہ جیتا ہے نہ مرتا ہے
کیوں حق لینے سے ڈرتا ہے
ہے حق ہمارا آزادی
ہم لیکر رہیں گے آزادی
یہ نغمہ تحریک انصاف کے ہر جلسے، ہر ریلی میں نوجوانوں کے خون گرماتا تھا، ہر گزرتے دن کے ساتھ نوجوان پی ٹی آئی کے ہراول دستے میں شامل ہو رہے تھے، وہ بچے، بچیاں، نوجوان، بوڑھے جنہوں نے کبھی زندگی میں سخت دھوپ کا سامنا نہیں کیا تھا، انہوں نے پولیس کے تشدد برداشت کئے، شیلنگ کا سامنا کیا، حوالاتیں دیکھیں۔ آزادی کے نغمے سنانے والے ابرارالحق کی پریس کانفرنس سن کر وہ لطیفہ یاد آ گیا۔جنگ جاری تھی، ایک مراثی ماں کے قدموں میں آ کر بیٹھ گیا، ماں نے پوچھا خیر ہے اللہ دتہ کہنے لگا ماں جی اجازت لینے آیا ہوں، کس بات کی؟ اپنے ملک کی خاطر لڑنا چاہتا ہوں، جہاد پر جانا چاہتا ہوں، ماں نے کہا! بیٹا یہ ہمارے بس کی بات نہیں، آرام سے گھر بیٹھے رہو، لیکن اللہ دتہ بضد رہا، آخر ماں نے مجبور ہو کر سرحد پر جانے کی اجازت دے دی۔ایک گھنٹہ ہی گزرا، پسینے سے شرابور اللہ دتہ بھاگتے ہوئے گھر داخل ہوا، سانسیں اکھڑیں ہوئی تھیں، ماں نے پوچھا ! پتر کیا ہوا؟ آپ تو جنگ لڑنے گے تھے۔ اللہ دتہ نے گھبرائے ہوئے کہا، ماں وہ تو سیدھی گولیاں چلاتے ہیں، چاہیے آنکھ پر لگ جائے۔ مسٹر ابرار الحق! آپ گانا گانے والے ہیں، وہی کام کریں۔ حق، سچ، آزادی، حقوق کی بات نہ کریں، ان کاموں کیلئے جان بھی قربان کرنا پڑتی ہے۔ آپ لوگوں کی خاطر ہزاروں بچے، بچیاں اس وقت جیلوں میں قید ہیں اور تم آرام سے ایک پریس کانفرنس کر کے پتلی گلی سے نکل گئے، تمہارے چہرے پر ذرا ندامت نہیں دیکھی، کوئی شرم نہیں دیکھی۔ فردوس عاشق اعوان، الیکشن ہار گئی، اس کے باوجود وزارتوں کے مزے اڑاتی رہیں، سرکاری گاڑیوں میں مکمل پروٹوکول کو خوب انجوائے کیا، اچانک یاد آ گیا، وہ تو ایک محب وطن ہے، اس سے پہلے تو وہ ایک ’’دہشگرد‘‘ پارٹی میں شامل تھی۔ سیف اللہ نیازی کا نام کبھی سنا ہی نہیں تھا، اس کا تعارف کیا ہے، عمران خان کا کزن۔ سینیٹر بنایا گیا، پارٹی کا چیف آرگنائزر، اسے اچانک یاد آ گیا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی، لہٰذا اسے پارٹی چھوڑ کر اپنی صحت پر توجہ دینا ہو گی۔ فواد چوہدری، مراد راس، عامر کیانی، شیریں مزاری، جمشید چیمہ، ملیکہ بخاری، مسرت چیمہ وغیرہ وغیرہ سب اپنی اپنی مجبوریاں بیان کر کے خاموشی سے قافلے کو چھوڑ کو گھروں کو نکل گئے۔ تمام افراد اچھے دنوں میں وزارتوں کے خوب مزے اڑاتے رہے، جونہی مشکل وقت آیا ایک ایک کرکے بھاگنے لگے۔ کسی نے سوچا جو ہزاروں کارکن جیلوں میں قید ہیں ان کا کیا بنےگا؟ تشدد سہنے، قیدیں کاٹنے کیلئے عام کارکن، مزے اٹھانے کیلئے چوہدری، چیمے، کیانی، مزاری ۔۔۔ واہ۔ چلو اچھا ہوا کچھ لوگ پہچانے گے۔ شاہین صہبائی نے لکھا ہے، عمران خان طاقتوروں کا شکریہ ادا کرے، انہوں نے بڑی محنت سے تحریک انصاف سے مطلب پرست، بزدل افراد کو نکال دیا ہے، اب باقی مضبوط اور وفادار افراد رہ جائیں گے جو آنیوالے دنوں میں تحریک کی کامیابی کا سبب بنیں گے۔ کسی کے جانے سے فرق نہیں پڑتا، بس لوگوں کی پہچان ہو جاتی ہے، 9 مئی کے بعد ہونے والے سروے میں91 فیصد شہری عمران خان کی حمایت میں نظر آئے ہیں۔
طویل لانگ مارچ کے دوران ماؤ زے تنگ نے اپنے کامریڈوں سے پوچھا! ہم کمزور ہوئے ہیں یا طاقت ور؟ ایک کامریڈ نے مایوسی سے کہا پہلے ہم لاکھوں میں تھے اب ہزاروں میں ہیں اس کا مطلب یہی ہوا کہ کمزور ہوگئے ہیں۔ ماؤ زے نے مسکرا کر کہا، نہیں ہم پہلے سے زیادہ طاقت ور ہو گئے ہیں کیوں کہ جتنے بھی کمزور عناصر تھے وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے اب صرف مضبوط افراد رہ گئے ہیں۔

Related Articles

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Stay Connected

22,017FansLike
0FollowersFollow
21,200SubscribersSubscribe
- Advertisement -

Latest Articles