جیسے جیسے پی ٹی آئی کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے عام لوگ یہ سوچ رہے ہیں آخر ایک مقبول ترین جماعت کو ختم کیوں کیا جا رہا ہے اس کے رہنماؤں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیوں کیا جا رہا ہے ،لوگ یہ بھی سوال اٹھا رہے ہیں اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کردار کب ختم ہوگا؟اور یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ لوگ یہ سوال اٹھانے کا حق رکھتے ہیں جمہوریت ایسا نظام حکومت ہے جس میں ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے اور کرنا چاہیے ، جمہوریت نظام کے پیروکاروں کو قوت برداشت اپنی انتہا پر رکھنی چاہیے اس نظام میں عدم برداشت کی جگہ نہیں ، بہر حال یہ ہمارا موضوع بحث نہیں ہم تو یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کیخلاف ایکشن کیوں ضروری ہوا؟ اس حوالے سے جو عام طور پر مثالیں دی جا رہی ہیں وہ نو مئی کے واقعات کی ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں نو مئی کے پرتشدد واقعات کا صرف ایک دشمن ہی سوچ سکتا ہے ، صرف اور صرف فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا بھی کئی سوالات کو جنم دیتا ہے ۔ غم و غصے کے اظہار کے کئی طریقے ہوتے ہیں ہم ماضی میں اپنے ہی ملک میں ایسے احتجاج دیکھ چکے ہیں جن میں املاک کو نقصان پہنچایا گیا ، راستے بند کئے گئے ، حتی کہ احتجاج کے دوران معصوم افراد کی جانیں بھی ضائع ہوئیں مگر کسی نے بھی ایسی جرات نہیں کی تھی کہ پاک فوج کی تنصیبات کو نشانہ بنائے جو نو مئی کو کیا گیا ۔ہمیں اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں کردار بارے تحفظات ہو سکتے ہیں اس پر ہم اپنی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کا اظہار کر سکتے ہیں مگر ہم اگر یہ کہیں کہ ہمیں فوج کی ضرورت ہی نہیں یا فوج ملکی سلامتی کی ضامن نہیں ہے تو یہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی یہ حقائق پرمبنی ہے ، پاک فوج کی تنصیبات پر حملے کر کے اور اس میں دراڑ ڈال کر اسے کمزور کریں اور دیکھیں وہ دن دور نہیں ہو گا جب عالمی میڈیا یہ نشر کرے گا کہ اتنے پاکستانی پیلٹ گنز کا نشانہ بنائے گئے ،اتنے پاکستانیوں کو سرچ آپریشن کے دوران نشانہ بنایا گیا ،اس لئے ضروری ہے ہم ہوش کے ناخن لیں ، نو مئی کے واقعات میں کوئی بھی ملوث ہو اُس کیخلاف سخت ترین ایکشن ضروری ہے جو لیا بھی گیا ہے ۔مگر اس کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات ہیں جن کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا، سب سے بڑی وجہ سی پیک کے منصوبے ہیں جب بھی ان پر پیش رفت ہوتی ہے ملک میں دنگا فساد اور ملک میں دھرنوں ، مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ، جس کو ہم پاکستانی شائد اُس گہرائی ، سنجیدگی سے نہیں دیکھتے جتنا کہ چین دیکھتا ہے کیونکہ چین ایک بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے،کیا وجہ ہے کہ جنرل عاصم منیر چین کا دورہ کرتے ہیں اور چینی قیادت کو سی پیک کے حوالے سے اہم یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیں ان کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چین کاشغر تا گوادر اٹھاون ارب ڈالرز کی لاگت سے ریلوے لائن بچھانے کے منصوبے کا اعلان کر دیتا ہے ، اسی طرح چینی وزیرخارجہ پاکستان کے دورے پر آتے ہیں اگلے ہی روز پاکستان میں آگ اور خون کا کھیل شروع ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح روس سے خام تیل کا پہلا کارگو جہاز اگلے چند دنوں تک پاکستان پہنچ جائے گا، ایران اور پاکستان کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے پر پھر سے بات چیت ہو رہی ہے ، اسی طرح روڈ ٹو مکہ پراجیکٹ حقیقت بننے جا رہا ہے ایسے میں یہ ہنگامہ آرائی ، توڑ پھوڑ ایک سوچی سمجھی سازش نہیں تو اور کیا ہے ،یہ وہ تمام حقائق ہیں جو بتاتے ہیں کہ خان اعظم گروپ کیخلاف ایکشن اب ناگزیر تھا ، اسی طرح تاریخ گواہ ہے جب آئی ایم ایف نے پی ٹی آئی حکومت کو آنکھیں دکھائیں تو عمران خان نے سی پیک منصوبے کی مکمل تفصیلات جو خفیہ رکھنا طے پایا تھا وہ آئی ایم ایف کے حوالے کر دیں اور یوں منصوبے پر کام ٹھپ ہو گیا ،پاکستان کی معاشی شہ رگ کاٹ کر امریکا کے حوالے کر دی گئی ،اور نتیجہ یہ نکلا کہ چین پاکستان سے ناراض ہو گیا اب ایک مرتبہ پھر جب چین کو یقین دہانی کرائی گئی اور حکومت نے عملی اقدامات اٹھائے تو ساتھ ہی ملک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کر دیا گیا اور اپنی مقبولیت کا بھر پور فائدہ اٹھایا گیا ،اب تھوڑا ماضی میں بھی جائیں ، دو ہزار تیرہ میں عمران خان نے ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنا دیا، جس کو وہ خود ایک تاریخی دھرنا قرار دیتے ہیں ،اس دوران پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملے کئے گئے ، سپریم کورٹ پر گندے کپڑے لٹکائے گئے ،اس دھرنے کا بظاہر مقصد تو اقتدار کا حصول تھا مگر اصل سازش تھی چین کے صدر کا دورہ پاکستان کو منسوخ کرانا جس میں وہ کامیاب رہے،اقتدار کا حصول بھی یقینا ایک مقصد ہے مگر بڑا مقصد بیرونی مقاصد کو پورا کرنا ہے ، جس کے لئے مذہبی کارڈ کا استعمال بھی خوب کیا گیا ، اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا پہلو بھی ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز میں وکلا، دانشور ، علما اور دیگر طبقہ بھی شامل ہے دیکھنا یہ ہے کہ ان لوگوں کو عمران خان کے مذموم مقاصد کو جان کیوں نہ سکے ، یہ تمام لوگ اُن طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جو باخبر ہیں جنہیں حالات کی پوری سمجھ بوجھ ہے مگر اس کے باوجود وہ اب تک اس پارٹی کے ساتھ جڑے ہوئے تھے