بدعنوان شخص کبھی بہادر نہیں ہوسکتا،ایماندار بزدل نہیں ہوتے،آصف زرداری،نوازشریف اور عمران خان کا موازنہ کرکے دیکھ لیں۔میرے ایک قابل فخر دوست سول جج نے ہمیشہ لوگوں کو انصاف دیا،کبھی کسی کا دبائو محسوس نہیں کیا،انتہائی طاقتور لوگوں کیخلاف بھی فیصلے دیئے،میں نے پوچھا یہ کیسے کرلیتے ہو؟ وہ مسکرائے ! کہنے لگے میرے بیڈ پر آج تک میری اہلیہ کے علاوہ کوئی نہیں آئی ،کبھی کسی پارٹی میں جام نہیں اچھالے،رکشے اور بس پر سفر کرتا ہوں،بچوں کو حلال کھلاتا ہوں، مجھے کوئی کیسے بلیک میل کرسکتا ہے ؟کوئی کیسے دبائومیں لاسکتا ہے ؟140نمبر پر آنیوالی ہماری عدلیہ میں ایسے بھی لوگ موجود ہیں،ذرا غور کریں تو کوئلے کی کان سے ہیرے بھی نکل آتے ہیں۔جج ہمایوں دلاور کسی روز رکشے یا بس میں سفر کرکے دکھائیں؟آدمی کی سوچ،ارادے،جدوجہد ہی اس کی قسمت بن جاتی ہے،نواز شریف سیاست میں کیوں آئے ؟مال بنانے،کاروبار کو تحفظ دینے،کامیاب ہوئے۔زرداری کا بھی یہی مشن تھا۔کپتان بھی شوکت خانم،نمل یونیورسٹی کے بجائے شوگر اور ٹیکسٹائل ملز لگا سکتے تھے۔زرداری کی طرح بیوی کی جائیدادوں پرکھرب پتی بن سکتے تھے ،لیکن نہیں۔۔۔وصیت کی ہوئی،مرنے کے بعد گھر سمیت تمام جائیداد شوکت خانم کو عطیہ ہوجائے گی۔دوست ،جاننے والے ایک ہی سوال کرتے ہیں،عمران خان کا کیا بنے گا؟
ایک گھوڑا گہرے گڑھے میں جا گرا اور زور زور سے ہنہنانے لگا۔گھوڑے کا مالک کسان تھا جو کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا،جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گھوڑا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے، وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا، چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں، اور گڑھے کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا، اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں۔یہ سوچ کر اس نے اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور گڑھا بند کرنا شروع کر دیا،سب کے ہاتھ میں ایک ایک بیلچہ تھا جس سے وہ مٹی، بجری اور کوڑا کرکٹ گڑھے میں ڈال رہے تھے گھوڑا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا،اس نے اور تیز ہنہنانا شروع کر دیا، کچھ ہی لمحے بعد گھوڑا بالکل خاموش سا ہو گیا،جب کسان نے جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب گھوڑے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تب تب وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی پر کھڑا ہو جاتا ہے،یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا، کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا رہا اور گھوڑا اسے اپنے بدن سے ہٹا ہٹا کر اوپر آتا گیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے اوپر تک پہنچ گیا اور باہر نکل آیا،یہ منظر دیکھ کر کسان اور اس کے پڑوسی سکتے میں آ گئے۔ زندگی میں ہر شخص کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہو تے ہیں کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جائے، ہماری کردار کشی کی جائے، ہمارے دامن کو داغدار کیا جائے، ہمیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے، لیکن گندگی کے اس گڑھے سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم ان غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو کر رہ جائیں،بلکہ ہمیں بھی ان بے کار کی چیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے،زندگی میں ہمیں جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں مگر یہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ آیا ہم ہار مان کر ان کے نیچے دب جائیں یا ان کے اوپر چڑھ کر مشکل کے کنویں سے باہر آنے کی ترکیب
کریں،خاک ڈالنے والے ڈالتے رہیں مگر پرعزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتے۔آپ سمجھیں عمران خان بھی وہ گھوڑا ہے،جسے تمام طاقتور ملکردفن کرنا چاہتے ہیں،ان کے اوپر کچرا اور مٹی ڈال رہے ہیں لیکن وہ ایک پرعزم انسان ہیں،وہ ہار مان کرانکے کچرے اور مٹی کے نیچے دب نہیں جائینگے،چند دنوں کے بات ہے وہ کنویں سے باہر نکل آئینگے اور ان کے مخالفین پر سکتا طاری ہوگا۔
ساحر لدھیانوی!
ہزار برق گرے، لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں
جگر مراد آبادی!
جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں
وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں
زندگی میں ہمیں جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں مگر یہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ آیا ہم ہار مان کر ان کے نیچے دب جائیں یا ان کے اوپر چڑھ کر مشکل کے کنویں سے باہر آنے کی ترکیب کریں،خاک ڈالنے والے ڈالتے رہیں مگر پرعزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتے۔