۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کی سیاست اور اقتدار کی جنگ میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ لیکن اب ہر آنے والے دن کے ساتھ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ اپنا کردار مضبوط سے مضبوط تر کرتی نظر آتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حکومت، سیاست اوراسٹیبلشمنٹ کے درمیان عدم توازن میں اضافہ ہورہاہے اور سیاست عملی طور پرطاقتور طبقےکے کنٹرول میںہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے موجودہ معاشی حالات نے ہر طبقے کو متاثر کیاہے، اور یہ تمام طبقات ان حالات کا ذمہ دار موجودہ سیاسی بحران کو ٹھہرا رہے ہیں اور سیاست دان اس کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر ڈال رہے ہیں۔۔سب جانتے ہیں کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار قیامِ پاکستان کے فوراً بعداس وقت سامنے آ گیا تھا جب قائد اعظمؒنے ایو ب خان کو بریگیڈیر ہیڈکوارٹر بنا کر مشرقی پاکستان بھیجااور ان کے تقرر نا مہ پر درج کیا کہ اس پر نظر رکھی جا ئے کیو نکہ یہ افسر سیا ست میں گہر ی دلچسپی رکھتا ہے ۔بعد میںیہ بات راولپنڈی ساز ش کیس سےسامنےآئی۔جس طرح ایوب خان کے ما رشل لا سے پہلے سول حکومتیں ٹوٹتی بنتی رہی ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ایوب خان نے اسکندر مرزا کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹا ۔ 1965 میں مسلم لیگ کے امیدوار کے طور پر فاطمہ جناح کا مقابلہ کیااور دوسری بار متنازعہ طور پر صدر منتخب ہوئے۔ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں سیاسی انتشار اور افراتفری میں اضافہ ہوا۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی ایوب خان کے رستے پر چلتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا اور انہیں تختہ دار پر پہنچا کر مارشل لاء نافذ کیا۔ ضیاء کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ وہ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں سےمتنفر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 1985 میں اس کے دور حکومت میں ہونے والے واحد انتخابات غیرجماعتی بنیادوں پر کرائے گئے ۔۔بعد ازاںجنرل پرویز مشرف نے نیٹو اور امریکی افواج کو پاکستان کے اندر حملے کرنے کی اجازت دی۔ ان کے دور میں دہشت گردی بڑھی۔ جمہوریت کو پٹڑی سے اُتارنا ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ان سب نے جمہوریت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا اور ہمیشہ سیاستدانوں کو کرپٹ اور غدار قرار دیا۔۔ اکثر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ فوج سیاسی نتائج کی تشکیل کے لئے جمہوری عمل میں مداخلت کرتی ہے۔ انٹیلی جنس سروسز پر انتخابات پر اثر انداز ہونے اور مخصوص امیدواروں کو فروغ دے کر سیاسی نتائج کو مبینہ تشکیل دینے میں کردار ادا کرنے کا بھی الزام عائد کیا جاتا ہے۔ لیکن حسین حقانی کے میمو سکینڈل سے ہر سیاستدان کو یہ سمجھ جانا چاہئے کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ امریکہ، ہندوستان، افغانستان، بلوچستان اور فاٹا کے ایشوز پر جمہوری حکمرانوں کو آزادانہ فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی ۔ ویسے حقیقتاً ایسا ہونا بھی نہیں چاہئے کیونکہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے پاکستان کے اداروں اور معیشت کو جس حد تک تباہ و برباد کر دیا ہے اور وہ کرپشن ،ذاتی مفادات اور آپس کے لڑائی جھگڑوں میں جس قدر مشغول ہیں ان حالات میں کیسے ممکن ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اسکی تابع سول بیورو کریسی اپنے ادارتی مفادات کے تحفظ کےلئے سیاسی عمل کو کنٹرول کرنے کی بالواسطہ کوشش نہ کرے۔دوسری طرف اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسٹیبلشمنٹ جس میں فوج، انٹیلی جنس سروسز اور دیگر با اثر ریاستی ادارے شامل ہیں آئینی دائرے میں رہ کرسیاست میں مداخلت سے گریز کرکے اور جمہوری عمل کو بغیر کسی مداخلت کے کام کرنے کی اجازت دے کر ملکی سیاسی استحکام میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا کردارملکی معیشت کو مضبوط بنانے،غربت، بے روزگاری اور عدم مساوات جیسے مسائل کو حل کرکےمعاشرتی بدامنی کے خطرے کو کم کرنے میں اہم ہو سکتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتاکہ اگر پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ دیانت داری کے ساتھ نیوٹرل رہتے ہوئے اپنے آئینی اور قانونی کردار تک محدود ہوتی بھی ہے تو پاکستان کا سیاسی نظام اورسیاسی رہنما ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل نہیں رہنے دیتے۔ آج ملک میں ہر سیاسی جماعت اقتدار میں ہونے کے باوجود لوگوں میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں حالانکہ آئینِ پاکستان کے مطابق فوج وزارت دفاع کا ماتحت ادارہ ہے۔سیاسی جماعتوں کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے لئےہمیشہ مقتدر قوتوں کے سہارےکے لئے ہرحربہ استعمال کرتی ہیں۔اگر ہم موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو بہت انتشار ہے افراتفری ہے اقتصادی بحران، زرعی پسماندگی اور اخلاقی بحران پوری سنگینی کے ساتھ مسلط ہے۔ان حالات کی ذمہ داری قومی اداروں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں پر بھی ڈالی جا سکتی ہے، لیکن یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاںہے کہ ان بحرانوں پر قابو پانے اور ملکی استحکام کا حل سیاسی جماعتوں کے پاس ہے ۔اب عوام کویہ سوچنا ہو گا کہ پاکستان کی ریاست، سیاست، جمہوریت اور معیشت سمیت قانون کے نظام کو روایتی طریقوں سے نہیں چلایا جاسکتا۔حکومت کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ اور حزب اختلاف کے باہمی گٹھ جوڑ نے سیاسی نظام کو کمزور کردیاہے۔ جب تک حکومتوں کو سازش کے تحت بنانے یا گرانے کا سلسلہ جاری رہے گا جمہوریت کسی صورت مستحکم نہیں ہو سکتی۔