سلطان صلاح الدین ایوبی ایک ایسی شخصیت تھے جن کا نام تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا ۔اُن کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر ، شام ، یمن اور عراق ، حجاز پر حکومت کی ۔
سلطان صلاح الدین ایوبی ،فاتح بیت المقدس ،ایوبی سلطنت کے بانی تھے ،وہ گیارہ سو اڑتیس میں عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے اور نسل کے اعتبار سے کرد تھے ۔اُن کی بہادری ، حسن خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث صرف مسلمان ہی نہیں عیسائی بھی اُنہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ابتدا میں سلطان صلاح الدین ایوبی نورالدین زنگی کی فوج میں افسر تھے ،مصر کو فتح کرنے والی فوج میں صلاح الدین بھی شامل تھے اس فوج کے سپہ سالار صلاح الدین کے چچا تھے ،صلاح الدین کو پانچ سو چونسٹھ ہجری میں مصر کا حاکم مقرر کیا گیا ۔اُسی زمانے میں اُنہوں نے یمن بھی فتح کر لیا،نورالدین زنگی کے انتقال کے بعد صلاح الدین حکمرا نی کے منصب پر فائز ہو گئے ۔صلاح الدین ایوبی کے کارناموں سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔ جنگ حطین ، فتح بیت المقدس اور تیسری صلیبی جنگ میں فتح اُن کے عظیم کارناموں میں شامل ہیں ۔گیارہ سو چھیاسی میں رینالڈ دوسرے مسیحی امرا کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملے کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا ،مگر سلطان صلاح الدین ایوبی نے حطین کے مقام پر رینالڈ کو جا گھیرا،گیارہ سو ستاسی میں حطین کے مقام پر تاریخ کی خوفناک ترین جنگ کا آغاز ہوا ۔اس جنگ میں تیس ہزار مسیحی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لئے گئے ، رینالڈ گرفتار ہوا اور سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے ہاتھوں سے اُس کا سر قلم کیا ۔فتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کا ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے ،فتح حطین کے بعد سلطان نے بیت المقدس کا رخ کیا ۔سلطان کی فوج اور مسیحی فوج کے درمیان ایک ہفتہ خونریز جنگ ہوئی اور نتیجہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی توقع کے مطابق نکلا ۔مسیحیوں نے ہتھیار ڈال دیئے ۔اور سلطان سے رحم کی اپیل کی ۔مسلمان اٹھاسی سال بعد بیت المقدس واپس لینے میں کامیاب ہوئے ۔سلطان صلاح الدین ایوبی فاتح کی حیثیت سے مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے اور نورالدین زنگی کا تیار کردہ منبر اپنے ہاتھ سے مسجد میں رکھا یوں نورالدین زنگی کی خواہش بھی پوری ہو گئی ۔یہاں فتح کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنے حسن اخلاق سے عیسائیوں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا ، کوئی ظلم نہیں ، کسی کا ناحق خون نہیں بہایا، ہر مسیحی کو امان دے دی گئی ، فدیہ نہ دے سکنے والے غریب عیسائیوں کا فدیہ سلطان اور اُن کے بھائی ملک عادل نے خود ادا کیا ۔بیت المقدس پر فتح کے ساتھ ہی یروشلم کی وہ مسیحی حکومت بھی ختم ہو گئی جو ایک ہزار ننانوے سے قائم تھی ،بیت المقدس پر تقریبا سات سو اکسٹھ سال مسلسل مسلمانوں کی حکومت رہی ،حتی کہ اُنیس سو اڑتالیس میں امریکا ، برطانیہ اور فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقے میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور یوں بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا ۔
تیسری صلیبی جنگ بھی سلطان صلاح الدین ایوبی کے کارناموں میں شامل ہے ۔بیت المقدس کی فتح یورپ سے برداشت نہ ہوئی ، ہر طرف لڑائی کی تیاریاں ہونے لگیں ، جرمنی ، اٹلی ، فرانس اور انگلستان سے بڑی فوجیں فلسطین روانہ ہونے لگیں ،انگلستان کا بادشاہ رچرڑ ، فرانس کا بادشاہ آگسٹس ، اور جرمنی کا بادشاہ فریڈرک بار بروسا اس مہم میں پیش پیش تھے ۔عیسائی لشکر یورپ سے چلا اور عکہ کی بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا ۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے مسلم دنیا سے مدد کا کہنا مگر کوئی بھی سامنے نہ آیا ، لہٰذا سلطان نے تن تنہا یورپ کی للکار کا سامنا کیا ۔یہاں ایک معرکے میں دس ہزار مسیحی قتل ہوئے ۔مگر صلیبی ناکہ بندی کے باعث سلطان اور اہل شہر کا رابطہ ٹوٹ گیا،کمک نہ پہنچ سکی جس کے باعث اہل شہر نے امان کے وعدے پر شہر مسیحیوں کے حوالے کر دیا ۔مگر رچرڈ وعدے سے مکر گیا اور محصورین کو قتل کر دیا ۔عکہ کے بعد صلیبیوں نے عسقلان کا رخ کیا ،جہاں سلطان صلاح الدین ایوبی نے جوانمردی سے ان کا مقابلہ کیا ۔یہاں تک صلیبیوں نے صلح کی درخواست کر دی اور فریقین میں معاہدہ طے پا گیا ۔اور یوں تیسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہو گیا ۔جرمنی کا بادشاہ فریڈرک باربروسا بھاگتے ہوئے دریا میں دوب کر مر گیا اور تقریبا چھ لاکھ مسیحی مارے گئے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نہ صرف اسلام کا سپاہی تھا بلکہ ایک عظیم فاتح ، عظیم انسان تھا اور فراخدلی میں اُس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جو جنگیں مذہبی بنیادوں پر لڑی جائیں وہ عموماً آتشِ انتقام سے لبریز ہوتی ہیں۔ اور بعض اوقات فاتحین صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔ سلطان نے ہمیشہ بردباری سے کام لے کر معاملات کو سلجھایا۔ جو عزت اور عظمت سلطان صلاح الدین ایوبی کو حاصل ہوئی کسی اور فاتح کو حاصل نہ ہو سکی۔ بیت المقدس کی فتح بھی اس عظیم انسان اور مجاہد اعظم کی فراخدلی اور عظمت کا ثبوت ہے۔ جس نے بیت المقدس اور عالم اسلام کا تحفظ کر کے مسلمانوں کے کھوئے ہوئے وقار اور عظمت کو دوبارہ بحال کیا۔ سلطان ایک کامیاب اور عادل حکمران تھا جس نے زندگی سادگی سے بسر کی اور مملکت کے وسائل عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کئے، مصر اور شام میں دینی مدرسے قائم کئے اور مسجدیں تعمیر کرائیں۔ہسپتال قائم کئے۔ محتاج خانے تعمیر کرائے۔ مسافروں کے لئے سرائے تعمیر کرائیں اور علما کرام کا وقار بلند کیا۔ سلطان کے کارناموں سے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہو گئی۔ وہ ایک راسخ العقیدہ پکا مسلمان تھا۔ جنگی کارناموں اور سیرت کی وجہ سے سلطان صلاح الدین ایوبی کا نام مجاہداسلام کے طور پر ہمیشہ قائم رہے گا۔ مسلسل حالت جنگ کی وجہ سے سلطان کی صحت خراب ہو گئی۔ اور آخر کار بخار کی وجہ سے سلطان نے 55 سال کی عمر میں 4 مارچ 1193ء کو جان جانِ آفرین کے حوالہ کر دی۔
سلطان نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ جہاد کرتے ہوئے گزارا۔وہ خود کہتے تھے جب تک وہ گھوڑے کی پیٹھ پر رہتے ہیں تو انہیں کوئی تکلیف نہیں رہتی تھی ۔صلاح الدین کا غیر مسلموں سے سلوک عین اسلامی تعلیمات کے مطابق تھا اور یہ اس کا ثبوت ہے کہ اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے حقوق بھی اسی طرح محفوظ ہوئے ہیں جس طرح مسلمانوں کے ۔
نور الدین کی طرح صلاح الدین کی زندگی بھی بڑی سادہ تھی۔ ریشمی کپڑے کبھی استعمال نہیں کیے اور رہنے کے لیے محل کی جگہ معمولی سا مکان ہوتا تھا۔ سلطان ایک سچے اور پکے مسلمان تھے۔