ناکام سیاستدان ہوتے ہیں، تاجر ہوتے ہیں، لیڈر ہوتے ہیں، ہیرو نہیں۔
قابل احترام، میرے دوست سعد اللہ شاہ فرماتے ہیں!
جو بھٹکتا ہے وہی راہ بنا جاتا ہے ۔۔۔۔ورنہ بستی میں کہاں سیدھا چلا جاتا ہے۔
گلیلیو نے عدالتی کارروائیوں سے تنگ آ کر یہ اعتراف کر لیا تھا کہ زمین سورج کے گرد نہیں گھوم رہی، بلکہ سورج زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔ اور وہ اپنی کہی اور لکھی گئی باتوں پر شرمندہ ہے۔ 22 جون 1633 کو اسے یہ سزا سنائی گئی کہ اسے نمبر ایک، اپنے دعوؤں کا ابطال کرنا ہو گا اور ان پر معافی مانگنا پڑے گی۔ نمبر دو، اپنے دعوؤں پر اسے اپنے گھر میں تاحیات قید رکھا جائے گا۔ نمبر تین، اپنی تصنیفات پر پابندی برداشت کرنا پڑے گی اور وہ کوئی نئی کتاب تحریر نہیں کرے گا۔ کہتے ہیں کہ گلیلیو نے اپنے تمام گناہ اور سزائیں تسلیم کر لیں مگر جاتے جاتے یہ بھی کہہ دیا ’’ گھوم تو یہ اب بھی رہی ہے‘‘۔
آپکی طاقت سے ہاتھی یہ تو چیخ چیخ کر کہہ سکتا ہے کہ وہ ہرن ہے، لیکن وہ ہرن بن نہیں جاتا، نہ ہی لوگ اسے ہرن تسلیم کر لیں گے، ایک مذاق ہوگا، تاریخ کئی صدیاں آپ کا مذاق اڑاتی رہے گی۔ دنیا طاقت سے نہیں، محبت سے فتح کی جا سکتی ہے۔ آپ اپنی اولاد سے طاقت کے بل بوتے پر عزت نہیں کروا سکتے۔ محبت سے تو آپ کسی کو قیدی بنا سکتے ہیں، جان نثار بنا سکتے ہیں۔ سب سے بڑے لیڈر، نبی مہربان میرے آقاﷺ نے ہمیں یہی تعلیم دی۔ سہیل بن عمر کافروں کا شاعر تھا، یہ رسول اللہﷺ کیخلاف اشتعال انگیز تقریریں کرتا تھا، توہین آمیز شعر کہتا تھا۔ جنگ بدر میں گرفتار ہوا، اسے حضورﷺ کے سامنے پیش کیا گیا۔حضرت عمرؓ نے تجویز دی کہ میں اس کے نچلے دو دانت نکال دیتا ہوں، یہ اس کے بعد شعر نہیں پڑھ سکے گا۔حضورﷺ نے فرمایا! میں اگر اس کے اعضا بگاڑ دونگا تو اللہ تعالیٰ میرے اعضا بگاڑ دے گا۔ سہیل بن عمر نے نرمی کا دریا بہتے دیکھا تو عرض کیا ’’مجھے فدیہ کے بغیر رہا کر دیا جائے‘‘۔ اس سے پوچھا گیا کیوں؟ اس نے جواب دیا، میری پانچ بیٹیاں ہیں، میرے علاوہ کوئی ان کا سہارا نہیں، میرے آقاﷺ نے سہیل بن عمر کو اسی وقت رہا کر دیا۔
طاقت دکھانے سے نفرت پھیلتی ہے، نفرت بغاوت کو جنم دیتی ہے۔ معصوم بچے والدین کیخلاف بغاوت کر دیتے ہیں، گھروں سے بھاگ جاتے ہیں۔ بلی کا بھی اگر راستہ روک دیا جائے تو وہ بھی انسانوں پر جھپٹ پڑتی ہے۔ ہم انسان ہیں، غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، غلطیوں سے سیکھنا چاہیے، ماضی میں بھی ہم نے طاقت دکھائی تھی کیا نتیجہ نکلا؟ چھوٹے بھائیوں نے الگ گھر بنا لیا۔ خوشی خوشی رہتا ایک خاندان دو حصوں میں بٹ گیا، طاقت تقسیم ہو گئی، وسائل تقسیم ہو گئے۔ اب ہم در در بھیک مانگتے پھر رہے ہیں، کب تک مانگتے رہیں گے؟ ادھار دینے والے کسی کے خیرخواہ نہیں ہوتے، انکی نظریں ہمارے ہر اثاثے پر ہوتی ہیں۔ پاکستان ایک عرصے سے عالمی طاقتوں کی نظر میں کھٹک رہا، اسکی ایک ہی وجہ، ایٹمی پاکستان۔ سوویت یونین کے پاس سب سے زیادہ ایٹم بم تھے، پھر بھی ٹوٹ گیا، معیشت ڈوب گئی تھی۔ گھر پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹتے ہیں بے شک آپکے پاس جدید اسلحہ موجود ہو۔ ٹھنڈے دل سے سوچا جائے، ملک ایسے نہیں چلتے، ایسے تو پرچون کی دکان بھی نہیں چلتی۔ نواز شریف کو واپس بلا لو، اگر وہ آنا چاہتے ہیں تو، بے شک الطاف کو بھی بلا لیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو کھلا میدان دے دیا جائے، مرضی سے کھیلنے دیا جائے، ایک جیسی سہولیات۔ عوام جس کو منتخب کرتے ہیں حکومت ان کے حوالے کی جائے۔ فیصلہ عوام کو کرنے دیا جائے، لوگ بہتر جانتے ہیں، کون ملک کا خیر خواہ ہے، کون نہیں۔ یہ ملک عوام کا ہے، انکے خون پسینے کی کمائی سے ادارے چل رہے ہیں، انہیں حق سے محروم کیوں رکھا جارہا ہے؟ 23 کروڑ عوام ایسے ہیں جن کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ آتش فشاں کے پھٹنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ کوئی عام بات نہیں، 18 سے 35 سال تک کی عمر کے ساڑھے 5 کروڑ ووٹ ہیں۔ ارکان کاغذ پر لکھی ہوئی ایک ہی تحریر پڑھ تو رہے ہیں لیکن۔۔۔ گلیلیو نے انکی مرضی کے مطابق اپنے تمام گناہ اور سزائیں تسلیم تو کر لی تھیں مگر جاتے جاتے یہ بھی کہہ دیا تھا ’’ گھوم تو یہ اب بھی رہی ہے‘‘۔ آپکی طاقت سے ہاتھی یہ تو چیخ چیخ کر کہہ سکتا ہے کہ وہ ہرن ہے، لیکن وہ ہرن بن نہیں جاتا، نہ ہی لوگ اسے ہرن تسلیم کرلیں گے، ایک مذاق ہو گا، تاریخ کئی صدیاں آپ کا مذاق اڑاتی رہے گی۔ دنیا طاقت سے نہیں، محبت سے فتح کی جا سکتی ہے۔